Friday, 18 September 2015



 
 "ہاتھی کے دانت کھانے  کے اور دکھانے اور"
بظاہر تو  یہ ایک کہاوت ہے, مگر درحقیقت یہ ایک ایسا کھیل  ہے جو ١٩٤٧ سے  پاکستان اور بھارت ہر روز کشمیریوں کی کی زندگیوں سے کھیلتے چلے آ رہے ہیں. کبھی سیاسی، سماجی  قومی بنیادوں پر تو کبھی لسانی، اور مذھبی بنیادوں  پر پاکستان اور بھارت  کی سیاسی قیادت صرف اور صرف ٹاک شو، اخباری بیانات یا پھر انتخابی مہمات میں پر جوش نعروں اور تقریروں سے ہی کشمیروں کے جذبات سے کھیلتے چلے آرہے ہیں - اپنی اپنی باری پر سرحد کے  دونوں ہی اطراف میں کٹھپتلی حکومتیں بنائی جاتی ہیں
 
 

 حکومتی مجاور کرسی  اور عیاشی  لالچ میں  پولیس کی صورت با وردی غنڈوں کو استمال میں لاتے ہوے اپنے اپنے علاقے میں وہ سب کچھ کرتے ہیں- جس سے ان کے ذاتی مفادات پورے ہو سکتے ہیں  حتیٰ کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی  کو بھی کچلنے کی بھی ناکام کوشش کی جاتی ہیں - اور ان کے کرایے کے پتلے اس میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں - خیرات میں انہیں عیاشیوں کیلئے مال دولت مہیا کی جاتی ہے - بھارت میں کچھ تھوڑا مختلف ہے وہاں حکومت نے  فوج اور پولیس کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے- جب چاہیں جہاں چاہیں کسی کو بھی شرپسندی کا نام دے کر گولی مار سکتے ہیں - غریب بیروزگار کشمیروں کو ملازمت کا جھانسا دے کر بلانا اور پھر گولی مار دینا اور خبروں میں دہشت گردوں کی حملے کی کہانی بنا کر پیش  کر دینا تو معمول کا کام ہے- جس کی تصدیق بھارتی حکومت کر بھی چکی ہے
 
 
 
 
 
حریت رہنماؤں کو پبلک سیفٹی ایکٹ  کی تحت جیلوں میں قید یا گھروں میں نظربند رکھنا بھی بھارت کا روز مرّہ کا معمول ہے چند سادہ لوح کشمیری پاکستان کے کسی قؤمی دن کی موقع پر پاکستان سے اظھار یکجہتی میں جب پاکستانی پرچم لہراتے ہیں، تو بھارتی سرکار تو بوکھلاہٹ کا شکار ہو جاتی ہے - اور برداشت نہیں کر پاتی اور مشتعل ہو کر نہتے کشمیروں کو شہید یا زخمی کیا جاتا ہے یا پھر غیر قانونی طور پر جیلوں میں بند کر دیا جاتا ہے- جہاں ان مظلوم کشمیروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک خبر کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی جیلوں میں انسانوں کے ساتھ غیر اخلاقی اور غیر انسانی سلوک تو ہوتا ہے ہي مگر اب کپواڑہ جیل کے سپرینڈنٹ نے اپنی عیاشی کے لیے جیل کے ایک  حصّے میں مویشی بھی پال رکھے ہیں اور جانوروں کی وجہ ماحول سخت آلودہ جس کی وجہ سے قیدیوں کو  بے حد مشکلات کا سامنا ہے-  انسانوں کو جانوروں کے ساتھ جیل میں رکھنا  انسانی حقوق کی  سخت اور کھلی خلافورزی ہے
 
 
بھارتی حکومت کشمیروں کی زندگیوں میں مزید مشکلات پیدا کرنے کے لیے طرح طرح کے بہانے تراش رہی ہے - اب کشمیر میں گاۓ کے گوشت پر پابندی عائد کر دی کیوں کہ اس سے ہندوؤں مذھبی احساسات مجروح ہوتے ہے. تو پھر شراب پر پابندی کیوں نہیں ہے شراب بھی اسلام میں حرام ہے شراب پر پابندی نہ ہونے سے مسلمانوں کے مذہبی احساسات کیوں بھول گے- مگر درحقیقت بھارت کا مقصد ہی صرف کشمیری مسلمانوں کا رخ تحریک آزادی کشمیر سے موڑنا ہے- جس میں وہ انشا الله کبھی بھی کامیاب نہیں ہونگے
 
 کشمیر میں مسلمان اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں- آج سے ایک سال سے زیادہ کا ارسا گزر گیا ہے جب اس وادی میں ایک قدرتی  آفت، خوفناک سیلاب کی صورت میں آئ تھی- جس نے وادی میں  تباہی مچا دی تھی- لوگوں  مکان، کاروبار کے علاوہ بیشمار قیمتی جانیں بھی اس قدرتی آفت کی نذر ہوئیں- غریب کشمیروں کا سب کچھ پانی میں بہ گ-
 حق تو یہ تھا کے بھارتی حکومت ان کشمیروں کی مدد کرتی - مگر  بھارتی حکومت نے صرف میڈیا  پر کشمیروں سے جھوٹے وعدوں  پر انحصار کیا- نہتے کشمیروں کی کسی قسم کی کوئی مدد نہ کی اور نہ صرف یہی کیا بلکہ بن الاقوامی امدادی تنظیموں کے کشمیر میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی- اورغیور کشمیروں نے اپی مدد اپ کے تحت پھر سے زندگی کی شروعات کیں

    میں ریاست کشمیر کا  ایک باشندہ  کی حثیت سے کشمیر کی غیور عوام، اور کشمیر سمیت دنیا کی  تمام آزادی پسند تنظیموں اور بالخصوص جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی قیادت اور  نمایندوں  سے اپنے اصل مقصد آزادی کشمیر کیلئے متحد ہونے  کی گزارش کرتا ہوں. ہمارے گروپ یا تنظیم کا چاہے کوئی بھی نام ہو مقصد سب کا ایک ہی ہونا چاہے " آزادی اور خودمختاری" 
 
 کشمیری قوم جو کہ ١٩٤٧ سے اپنے مذہبی، سماجی، سیاسی، انسانی اور اخلاقی حقوق کی  آزاد خاطر قربانیاں دیتی آئ ہے آیندہ بھی کسی قسم کی قربان سے دریغ نہیں
پاکستان اور بھارت  کی سیاسی قیادت اور اور ان کے سیاسی مجاوروں کو شائد اس بات کا علم نہیں کے ان کی عیاشیوں کا دور عنقریب اختتام پذیر ہونے کو ہے- انشا الله وہ دن دور نہیں حب شہیدوں کی قربانیاں رنگ لائیں گی اور  ریاست کشمیر ایک آزاد اور خودمختار ریاست کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرے گی- اور سیاسی مجاوروں کو چھپے کی جگہ بھی نہیں ملے گی

 

"""  کشمیر بنے گا خودمختار""""  

 

No comments:

Post a Comment